DNA

*ڈی این اے کیا

ڈی این اے یعنی کہ ڈی آکسی رائبو نیوکلیک ایسڈ انسانوں اور تمام جانداروں کے جسم میں پایا جانے والا وراثتی مادہ ہے۔ انسانی جسم کی اکائی سیل یونی خلیہ ہوتی ہے۔ اس خلیے کے درمیان میں نیوکلئیس پایا جاتا ہے جس کے اندر ڈی این اے ہوتا ہے۔ انسانی جسم کے تمام خلیوں میں ایک جیسا ہی ڈی این اے پایا جاتا ہے۔ ہر انسان کا ڈی این اے دوسرے انسان سے مختلف ہوتا ہے۔



ہر انسان اپنے ڈی این اے کا پچاس فیصد حصہ اپنی والدہ سے وصول کرتا ہے اور بقیہ پچاس فیصد والد سے۔ ان دونوں ڈی این اے کے مخصوص مرکب سے انسان کا اپنا ڈی این اے بنتا ہے۔ ڈی این اے میں انسان کے بارے میں سب معلومات ہوتی ہیں مثلاً اس کی جنس، بالوں کا رنگ، آنکھوں کا رنگ، سونے کے اوقات، عمر اور جسمانی ساخت وغیرہ۔ اس کے علاوہ اس انسان کو کون کون سی بیماریاں لاحق ہیں، یہ بھی اس کے ڈی این اے سے معلوم کیا جا سکتا ہے۔

*ڈی این اے ٹیسٹ کیسے کیا جاتا* ہے؟

جس شخص کا بھی ڈی این اے ٹیسٹ مقصود ہو اس کا بال،خون، ہڈی اور گوشت یا ان میں سے کسی ایک چیز کا نمونہ لیا جاتا ہے۔ سب سے پہلے انسانی خلیے میں سے ڈی این اے الگ کیا جاتا ہے اور پھر پولیمیریز چین ری ایکشن نامی طریقے کی مدد سے اس ڈی این اے کی لاکھوں کاپیاں بنا لی جاتی ہیں۔ ان لاکھوں کاپیوں کی مدد سے ڈی این اے کی جانچ بہتر طریقے سے ہو سکتی ہے۔ ڈی این اے کو جانچنے کے بعد ڈی این اے فنگر پرنٹ بنایا جاتا ہے۔ دو مختلف نمونوں کے ڈی این اے فنگر پرنٹ میں مماثلت دیکھ کر ان میں کسی تعلق کا تعین کیا جا سکتا ہے۔



حادثات کی صورت میں جب لاش کی شناخت بالکل نا ممکن ہو تب ڈی این کے ذریعے ہی شناخت عمل میں لائی جاتی ہے۔ ڈی این اے ٹیسٹ کی مدد سے جانچا جاتا ہے کہ اس لاش کا ڈی این اے کس خاندان سے مل رہا ہے۔ ڈی این اے میں موجود جینیٹک کوڈ کے تقابلی جانچ سے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ دو مختلف اشخاص میں کوئی خونی رشتہ ہے کہ نہیں ا۔سی لیے جھلسی ہوئی یا ناقابل شناخت لاشوں کے ڈی این اے نمونے لے کر دعویٰ دار لواحقین کے نمونوں سے ملائے جاتے ہیں۔ اگر جینیٹک کوڈ ایک جیسے ہوں تو خونی رشتہ ثابت ہو جاتا ہے اور لاش لواحقین کے حوالے کر دی جاتی ہے۔



ڈی این اے ٹیسٹ کے بعد ابہام کی بالکل گنجائش نہیں ہوتی۔ پاکستان میں فرانزک لیب، فرانزک سائنس دان اور ماہر عملے کی کمی کے باعث اس ٹیسٹ کو انجام دینے میں کافی مشکلات کا سامنا رہتا ہے اور اس کو مکمل ہونے میں ہفتہ بھی لگ جاتا ہے۔

*ڈی این اے ٹیسٹ کیوں کیا جاتا ہے؟*

ڈی این اے ٹیسٹ کے چند عام مقاصد درج ذیل ہیں۔

*ولدیت ثابت کرنے کے لیے*

اگر یہ جاننا ہو کہ کسی انسان کے حقیقی والدین کون ہیں تو اس انسان کا ولدیت کا دعویٰ کرنے والوں کے ساتھ ڈی این اے میچ کر کے دیکھا جاتا ہے۔ اگر دونوں کے ڈی این اے مماثلت ہو تو ولدیت کا دعویٰ درست قرار پاتا ہے۔

*مجرم کی شناخت کے لیے*

ڈی این اے کی مدد سے مجرم کی شناخت بھی آسانی سے کی جا سکتی ہے۔ اگر جائے وقوع سے مجرم کا بائیولوجیکل نمونہ ملے تو اس کا ڈی این اے حاصل کر کے مکمل رپورٹ مرتب کر لی جاتی ہے۔ اس ڈی این اے کو اس خاص کیس میں نامزد ملزمان کے ڈی این اے سے میچ کرکے مجرم کی نشاندہی کی جا سکتی ہے۔

*جین تھیراپی*

اگر کسی خاندان میں کوئی مخصوص بیماری ہو تو وہ اپنے بچوں کی پیدائش سے پہلے ڈی این اے ٹیسٹ کی مدد سے جان سکتے ہیں کہ ان کے بچے میں بھی یہ بیماری ہوگی یا نہیں۔

*جینیٹک جینیالوجی*

اگر کوئی اپنے آبائو اجداد کے متعلق معلومات حاصل کرنا چاہے تو وہ بھی ڈی این ٹیسٹ کے ذریعے ممکن ہےی این اے کیا ہے؟*

ڈی این اے یعنی کہ ڈی آکسی رائبو نیوکلیک ایسڈ انسانوں اور تمام جانداروں کے جسم میں پایا جانے والا وراثتی مادہ ہے۔ انسانی جسم کی اکائی سیل یونی خلیہ ہوتی ہے۔ اس خلیے کے درمیان میں نیوکلئیس پایا جاتا ہے جس کے اندر ڈی این اے ہوتا ہے۔ انسانی جسم کے تمام خلیوں میں ایک جیسا ہی ڈی این اے پایا جاتا ہے۔ ہر انسان کا ڈی این اے دوسرے انسان سے مختلف ہوتا ہے۔



ہر انسان اپنے ڈی این اے کا پچاس فیصد حصہ اپنی والدہ سے وصول کرتا ہے اور بقیہ پچاس فیصد والد سے۔ ان دونوں ڈی این اے کے مخصوص مرکب سے انسان کا اپنا ڈی این اے بنتا ہے۔ ڈی این اے میں انسان کے بارے میں سب معلومات ہوتی ہیں مثلاً اس کی جنس، بالوں کا رنگ، آنکھوں کا رنگ، سونے کے اوقات، عمر اور جسمانی ساخت وغیرہ۔ اس کے علاوہ اس انسان کو کون کون سی بیماریاں لاحق ہیں، یہ بھی اس کے ڈی این اے سے معلوم کیا جا سکتا ہے۔

*ڈی این اے ٹیسٹ کیسے کیا جاتا* ہے؟

جس شخص کا بھی ڈی این اے ٹیسٹ مقصود ہو اس کا بال،خون، ہڈی اور گوشت یا ان میں سے کسی ایک چیز کا نمونہ لیا جاتا ہے۔ سب سے پہلے انسانی خلیے میں سے ڈی این اے الگ کیا جاتا ہے اور پھر پولیمیریز چین ری ایکشن نامی طریقے کی مدد سے اس ڈی این اے کی لاکھوں کاپیاں بنا لی جاتی ہیں۔ ان لاکھوں کاپیوں کی مدد سے ڈی این اے کی جانچ بہتر طریقے سے ہو سکتی ہے۔ ڈی این اے کو جانچنے کے بعد ڈی این اے فنگر پرنٹ بنایا جاتا ہے۔ دو مختلف نمونوں کے ڈی این اے فنگر پرنٹ میں مماثلت دیکھ کر ان میں کسی تعلق کا تعین کیا جا سکتا ہے۔



حادثات کی صورت میں جب لاش کی شناخت بالکل نا ممکن ہو تب ڈی این کے ذریعے ہی شناخت عمل میں لائی جاتی ہے۔ ڈی این اے ٹیسٹ کی مدد سے جانچا جاتا ہے کہ اس لاش کا ڈی این اے کس خاندان سے مل رہا ہے۔ ڈی این اے میں موجود جینیٹک کوڈ کے تقابلی جانچ سے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ دو مختلف اشخاص میں کوئی خونی رشتہ ہے کہ نہیں ا۔سی لیے جھلسی ہوئی یا ناقابل شناخت لاشوں کے ڈی این اے نمونے لے کر دعویٰ دار لواحقین کے نمونوں سے ملائے جاتے ہیں۔ اگر جینیٹک کوڈ ایک جیسے ہوں تو خونی رشتہ ثابت ہو جاتا ہے اور لاش لواحقین کے حوالے کر دی جاتی ہے۔



ڈی این اے ٹیسٹ کے بعد ابہام کی بالکل گنجائش نہیں ہوتی۔ پاکستان میں فرانزک لیب، فرانزک سائنس دان اور ماہر عملے کی کمی کے باعث اس ٹیسٹ کو انجام دینے میں کافی مشکلات کا سامنا رہتا ہے اور اس کو مکمل ہونے میں ہفتہ بھی لگ جاتا ہے۔

*ڈی این اے ٹیسٹ کیوں کیا جاتا ہے؟*

ڈی این اے ٹیسٹ کے چند عام مقاصد درج ذیل ہیں۔

*ولدیت ثابت کرنے کے لیے*

اگر یہ جاننا ہو کہ کسی انسان کے حقیقی والدین کون ہیں تو اس انسان کا ولدیت کا دعویٰ کرنے والوں کے ساتھ ڈی این اے میچ کر کے دیکھا جاتا ہے۔ اگر دونوں کے ڈی این اے مماثلت ہو تو ولدیت کا دعویٰ درست قرار پاتا ہے۔

*مجرم کی شناخت کے لیے*

ڈی این اے کی مدد سے مجرم کی شناخت بھی آسانی سے کی جا سکتی ہے۔ اگر جائے وقوع سے مجرم کا بائیولوجیکل نمونہ ملے تو اس کا ڈی این اے حاصل کر کے مکمل رپورٹ مرتب کر لی جاتی ہے۔ اس ڈی این اے کو اس خاص کیس میں نامزد ملزمان کے ڈی این اے سے میچ کرکے مجرم کی نشاندہی کی جا سکتی ہے۔

*جین تھیراپی*

اگر کسی خاندان میں کوئی مخصوص بیماری ہو تو وہ اپنے بچوں کی پیدائش سے پہلے ڈی این اے ٹیسٹ کی مدد سے جان سکتے ہیں کہ ان کے بچے میں بھی یہ بیماری ہوگی یا نہیں۔

*جینیٹک جینیالوجی*

اگر کوئی اپنے آبائو اجداد کے متعلق معلومات حاصل کرنا چاہے تو وہ بھی ڈی این ٹیسٹ کے ذریعے ممکن ہے

Comments

Popular Posts